Search This Blog
Real Urdu Kahaani , real love stories, moral stories, real sad stories, real tragedy stories, real poetry, Urdu poetry, Sindhi poetry, real poets and writers.
Featured
- Get link
- X
- Other Apps
Gul Naz Urdu story qist no: 2
Gul Naz |
گل ناز
2 قسط نمبر
ماستر آیا ، ماستر آیا چلو چلو کلاس میں چلو ماستر آگئے ہیں ،کلاس میں چلو چلو چلو ۔۔۔۔۔۔۔۔
شفیع ماستر: اچھا بچوں کل ہم نے کیا پڑھا تھا ؟
بچے: ماستر صاحب آپ نے والدین کے حقوق کے بارے میں ہمیں بہت کچھ بتایا اور سکھایا تھا ۔
شفیع ماستر: اچھا تو آپ بتائیں کیا حقوق ہیں والدین کے ؟
بچے: ماستر صاحب ویسے تو والدین کے بہت سے حقوق آپ نے بتائے مگر جو ہم کو یاد ہے وہ یہ ہیں ، ایک تو جس طرح بچپن میں ہمارے والدین نے جس طرح ہمارا خیال رکھا اسی طرح ان کے بڑھاپے میں ان کا خیال رکھنا ہم پر فرض ہے اور والدین کا حق ہے۔ اللّٰہ پاک بھی اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ جس طرح تمھارے والدین نے تمھاری پرورش کی اسی طرح بزرگی میں تم ان کا خیال کرو، دوسرا ان سے دیمی آواز میں بات کرنا، تیسرا ان پہ کبھی بھی غسہ نہ کرنا، چوتھا ان کا ہمیشہ ہمیشہ خیال رکھنا چھوٹی سی چھوٹی ان کی ضروریات پوری کرنا اور بہت کچھ۔۔۔۔۔۔
شفیع ماستر: بہت خوب بہت خوب ، تالیاں تالیاں ۔۔۔۔
انور: ماستر صاحب، ماستر صاحب ظھیر اپنے والدین کا کہنا نہیں مانتا اور ان سے روز لڑتا جھگڑتا ہے ، اس کے والدین اس کو بہت سمجھاتے ہیں لیکن یہ سمجھنے کے بجائے ان پہ غصہ کرتا ہے ۔۔۔۔
شفیع ماستر: اچھا ٹھیک ہے، ٹھیک ہے تم بیٹھو ۔ ظھیر بیٹا آپ کھڑے ہوجائیں اور ظھیر کے علاوہ سارے بچے بیٹھ کر مجھے غور سے سنے آج جو میں آپ کو بتانے والا ہوں وہ ایک حقیقی واقعہ ہے۔
ہزاروں سال پہلے ایک قبیلہ مصر کے شھر میں رہتا تھا اور وہ بادشاہوں کا زمانہ تھا ، قبیلوں کے سرداروں کو بادشاہوں کی طرف سے جو بھی حکم ملتا تھا وہ ان کو بجا لاتے تھے اگر کوئی سردار ان کے حکم کی تعمیل میں دیری کرتا یا پورا نہ کر پاتا تو ان کو بہت بڑی سزا یا سزائے موت دے دی جاتی تھی۔۔۔۔
یہ سلسلہ ایسے ہی چل رہا تھا کہ ایک قبیلے میں ایک لکڑھار کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام اس کے دادا نے صابر رکھا ، وقت تیزی سے گزر رہا تھا بچپن پھر لڑکپن اور اس کے بعد جوانی پھر بڑھاپا ، صابر کے لڑکپن کا واقعہ ہے کہ ایک دن صابر اپنے والد کے ساتھ لکڑیاں کاٹنے جنگل گیا لیکن لاکھ سمجھانے پر بھی صابر کو لکڑیاں کاٹنی نہیں آ رہی تھی جس کی وجہ سے صابر کے باپ نے صابر کو بہت ڈانٹا ، صابر صرف نام کا صابر نہیں تھا وہ ہر چیز میں صبر و تحمل سے کام لیتا کبھی اپنے باپ سے اونچی آواز میں بات نہیں کرتا تھا وہ اپنے باپ کی ساری ڈانٹ بڑی خاموشی کے ساتھ سنتا اور پھر اپنے باپ سے کہتا کہ آئندہ میں ٹھیک سے کرونگا بابا جان یہ صابر کا کہنا ہوتا اور ادھر سے اس کے بابا اس کو سینے سے لگا کر کہتے بیٹا مین تجھ پر بہت غصہ کرتا ہوں نا مجھے معاف کرنا بیٹا ، مجھے معاف کرنا بیٹا ، نہیں بابا جان نہیں آپ ایسا کیوں کہ رہیں ہیں مجھے ڈانٹنا ، سمجھانا یہ سب آپ کا حق ہے مجھے اس سے کبھی بھی دکھ نہیں ہوتا البتہ میں تو خوش ہوتا ہوں جب آپ مجھے ڈانٹتے ہیں اور ویسے بھی آپ کے ڈانٹنے سے میری اصلاح ہوتی ہے جس چیز سے اتنا بڑا فائدا ہو اس کو تو میں دل سے قبول کرونگا۔۔۔۔ باپ اور بیٹا ایک دوسرے سے باتیں کرتے کرتے گھر آگئے ۔۔۔۔۔
یہ سارا ماجرا باپ اور بیٹے کی محبت، بیٹے کا اپنے باپ کا احترام اور ادب اس طرح تیزی سے پھیل گیا کہ بات قبیلے کے سردار تک پھچ گئی ، جس کو چاہت ہوئی کہ وہ اس لڑکے سے ملے ، سردار اپنے ساتھ ایک خاص وزیر کو لیے اس لڑکے سے ملنے کے غرض سے محل سے باہر آگیا ، راستے میں اسے یہ معلوم ہوا کے لڑکا تو جنگل میں لکڑیاں کاٹنے گیا ہے ، سردار نے وزیر سے کہا چلو ہم جنگل میں اس لڑکے سے ملنے چلتے ہیں ، وزیر نے کہا جو حکم ہو آپ کا جناب، دونوں جنگل میں آگئے دور دور جنگل میں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، وزیر نے کہا جناب لگتا ہے کہ ہمارے ساتھ کسی نے مذاق کی ہے لڑکا تو یہاں نہیں ہے، سردار نے کہا نہیں لڑکا جنگل میں ہی ہے تبھی سردار کو کاٹنے کی آواز سنائی دی اور دیکھا تو ایک بڑے درخت میں سے ایک لڑکا لکڑی کاٹ رہا ہے جب اس کی نظر دو اجنبیوں پر پڑی تو وہ درخت سے نیچے آگیا اور سلام کرنے کے بعد بڑی عاجزی سے کہا کہ میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں تو سردار نے کہا کہ دیکھو بیٹا ہم دو بوڑھے آدمی ہیں کچھ لکڑیاں چاہییے لیکن ہم کاٹینگے نہیں ، تم نوجوان ہو تم دوسری لکڑیاں کاٹ سکتے ہو ہمیں اپنی لکڑیاں دے دو ، نوجوان نے سوچے سمجھے بغیر ان کو اپنی ساری لکڑیاں دے دی تبھی سردار نے پوچھا بیٹا کیا تم ہم کو جانتے ہو کہ ہم کون ہیں ، جانے بغیر ہمیں اپنی لکڑیاں دے رہے ہو؟ جی یہ بات سچ ہے کہ میں آپ کو نہیں جانتا لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں ابھی نوجوان ہوں لیکن آپ بزرگ ہیں میرے ہوتے ہوئے آپ لکڑیاں کیسے کاٹ سکتے ہیں ۔۔۔۔
سردار نے لڑکے سے کہا کہ کیا تم کبھی اپنے قبیلے کے سردار سے ملے ہو؟ لڑکے نے کہا نہیں ، سردار نے کہا اچھا کل اپنے بابا کے ساتھ سردار کے محل آنا اور یہ لو محل کے رکھ والوں کو یہ سکا دکھانا وہ آپ کو اندر لے آئینگے میں محل میں ہوتا ہوں آپ کو محل دکھائوں گا لڑکے نے کہا جی ضرور میں وہ محل ضرور دیکھنا چاہونگا ۔۔۔۔
اگلے روز لڑکا اپنے باپ کے ساتھ محل میں آیا ، سپہائیوں نے استقبال کیا اور اندر لے آئے ، چالیس وزیروں نے ان کا پھر سے استقبال کیا اور اعلان کیا کہ سب کھڑے ہوجائیں سردار آ رہیں ہیں ، لڑکے نے جب دیکھا تو وہ دیکھتا رہ گیا اس کو بہت ندامت ہوئی اور دل میں کہنے لگا کہ یہ مینے کیا کیا میں نے ان کے ساتھ کوئی غلط زبانی تو نہیں کی تھی نا، لڑکا اسی سوچ میں گم تھا کہ سردار نے کہا آپ دونوں حضرات کا میں دل سے سعاغت کرتا ہوں، آنے کا بہت بہت شکریہ ، نہیں نہیں سردار یہ تو ہماری خوشنصیبی ہے جو آپ کی خوشنودی کے لیے ہم آج یہاں ہیں ۔
سردار نے مصر کے بادشاہوں کی ساری جاھلیت والی روایات سے پردا اٹھا کر اپنے سارے وزیروں سے کہا کہ مجھے اپنی اولاد نہیں ہے لیکن میں نے اپنا جانشین چن لیا ہے یہ جو لڑکا ہے صابر میں اس کی فرمانبرداری ، اس کا اپنے باپ کے ساتھ حسنِ سلوک ، انجان لوگوں کی مدد کرنا مجھے بہت پسند آیا ان ساری خوبیوں والا بندا اپنے قبیلے والوں کو کبھی ناراض نہیں کریگا ، کیا کسی کو اس بات سے اعتراض ہے ، ساری دربار سے ایک ہی آواز آئی سردار صابر کو سرداری مبارک ہو ہم دل و جان سے یہ اقرار کرتے ہیں کہ آج کے بعد صابر ہمارا سردار ہے۔۔۔
صابر اور اس کا باپ بہت خوش ہوئے اور سجدے میں جا گرے اللّٰہ پاک سے دعا کی یا اللّٰہ ہم اس قابل نہیں تھے ، قابل اور لائق بنانے والی ذات تو تیری ہے یا اللّٰہ میرے بیٹے صابر کو ایمان کے ساتھ اس کا فرض نبھانے کی توفیق عطا فرما، سبھی لوگوں نے آمین کہا، سردار کے محل میں جشن منایا گیا یہ بات اس وقت کے بادشاہ کو پتا چلی اس نے اسی وقت صابر کو اپنی دربار میں بلایا ، صابر تھوڑا ڈر رہا تھا لیکن سردار نے کہا صابر اب تم صرف ایک لکڑھار کے بیٹے نہیں اب تم ایک سردار ہو اور سردار یوں ڈرا نہیں کرتے وہ ہر چیز سے نپٹنا جانتے ہیں آگے تم بہت عقلمند ہو ، صابر اپنے باپ اور سردار سے دعا لیتا ہے اور اپنے ساتھ کچھ خاص وزیروں کو لے جاتا ہے ، جب صابر بادشاہ کی دربار میں پھنچتا ہے تو بادشاہ اسے دیکھ کر زور زور سے ہنستا ہے یہ دیکھ کر صابر بھی ہنستا ہے ، لیکن صابر کا ہنسنا بادشاہ کو اچھا نہیں لگا اور وہ صابر سے دریافت کرتا ہے کہ میں ہنسا وہ میں جانتا ہوں لیکن تم جو ہنسے وہ میں جاننا چاہتا ہوں، صابر نے بڑے تحمل اور عاجزی سے بڑا ہی دانشمندانہ جواب دیا کہ بادشاہ سلامت آپ پر میں ، میرا باپ ، میرا محل اور ساری ملکیت قربان ، جنابِ عالی جو جس سے محبت کرتا ہے وہ اسی کی طرح بننا چاہتا ہے ، میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں ، آپ کی طرح بننا چاہتا ہوں ، آپ کی طرح مسکرانا چاہتا ہوں اور آپ کی طرح ہنسنا چاہتا ہوں اگر میری یہ خواہشیں غلط ہیں تو جو آپ سزا دینا چاہیں مجھے منظور ہے ۔۔۔۔
بادشاہ صابر کا جواب سن کر ھکا بکا رہ گیا ، کچھہ وقت کے لیے وہ خاموش ہوگیا اس نے ایسے جواب کی امید نہیں کی تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ کتنا ظالم ہے اور لوگ کتنی نفرت کرتے ہیں , لیکن صابر کے جواب نےاسے لاجواب کردیا اس کو اچھا بننے کا ایک موقعہ مل گیا ، بادشاہ نے کہا واقعی مینے جو تمھارے بارے میں سنا تم تو اس سے بھی بھتر ہو ، میںنے تو تم کو آج سزا دینے کے غرض سے بلایا تھا مگر میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد اس سلطنت کا جانشین سردار صابر ہوگا ، اس کا ہی سکا چلیگا میری غیر موجودگی میں بادشاہ کے سارے اختیارات صابر کے پاس ہونگے اور ساری رعایا اور میری بادشاہی صابر کی تعظیم کریگی۔۔۔۔۔۔۔
شفیع ماستر: اچھا تو ظھیر بیٹا ، دیکھا جو والدین کی خدمت کرتا ہے ، ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتا ہے ، ان کا ادب کرتا ان پر اللّٰہ کتنا نہ مہربان ہوتا ہے ، کہاں لکڑھار کا بیٹا کچھ ہی وقت میں بادشاہ بن جاتا ہے ، یہ ہوتی ہیں والدین کی دعائیں ۔۔۔۔۔ سبھی بچوں نے تالیاں بجائیں اور استاد سے عہد کیا کہ آج کے بعد وہ اپنے والدین کا ہر کہنا مانیں گے اور ان سے کبھی بھی اونچی آواز میں بات چیت نہیں کرینگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شفیع ماستر: اچھا بچوں آج تمھاری کلاس پوری ہوئی کل وقت پہ آجانا سب، خدا حافظ بچوں ۔
بچے: خدا حافظ ماستر صاحب ۔۔۔۔۔
خادم: بیبی جی بیبی حویلی میں کچھ لوگ آیے ہیں وہ آپ کا بہت دیری سے انتظار کر رہیں ہیں ۔
بیبی جی: اچھا ان سے کہیں کہ میں تھوڑی دیر میں آ رہی ہوں تب تک آپ چائے کا بندوست کریں!
خادم: جی بیبی جی جیسا آپ کا حکم!
بیبی جی: آپ سب یہاں آئے اس کے لیے شکریہ ، آپ نے ابھی تک کچھ لیا ہی نہیں ، یہ لیجیے چائے پیجیئے ، یہ لیجیے آپ بھی لیجیے ۔۔۔۔۔۔۔
جی بیبی جی آپ نے ہم کو یاد کیا خیریت تو ہے نا حکم کریں ہمارے لیے کیا کام ہے۔۔۔
بیبی جی: مجھے پتا چلا ہے کہ ہمارے شھر میں کچھ لٹیرے اور چور گھوم پھر رہیں ہیں ، مجھے اپنے شھر میں امن اور سلامتی چاہیے ، آپ ایسا کریں اپنے خبری شھر میں پھیلا دیں اور جلد سے جلد مجھے آگاہ کریں ، میں نہیں چاہتی کہ کسی کا بھی نقصان ہو۔۔۔
جی بیبی جی ضرور ہم آپ کو آگاہ کریں گے ، اچھا تو اب ہمیں اجازت دیں ۔
خادم: بیبی جی میرے لیے اور کوئی حکم ۔۔۔۔۔
حکم نہیں ہے چچا اس لڑکی کا کیا ہوا ، اس کی کوئی خبر ہے ، جی جی بیبی جی یہ لیجیے اس لفافے میں اس لڑکی کے بارے میں خبر ہے ، میں یہ آپ کو دینے ہی والا تھا ، صرف مہمانوں کے جانے کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔
اچھا چاچا آپ جائو آرام کرو مجھے کچھ وقت اکیلے رہنے دو۔۔۔۔۔۔۔۔ خادم: ٹھیک ہے بیبی جی ۔۔۔۔۔
عینہ ، کلثوم ، زبیدہ ، علی سب باہر آئو ، کیا ہوا بابا ، کیا ہوا بابا ، کیا ہوا جی خیریت تو ہے نا ایسے چلا کیوں رہے ہو ، کوئی لوٹری نکلی ہے کیا؟ ۔۔۔۔۔ یہ لو سب منہ میٹھا کرو میرا پروموشن ہوا ہے اور پروموشن کے ساتھ ساتھ میری سیلری بھی ڈبل ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے نا خوشی کی بات ،،،، سب نے زور سے کہا جی جی یہ تو بہت بڑی خوشی کی بات ہے۔۔۔۔
میں یہ جان کر رہوں گا کہ مجھے برے خواب کیوں آتے ہیں ، وہ کون لوگ ہیں جو مجھے سمندر میں پھینک رہے تھے ۔۔۔سکندر یہ سوچتے سوچتے ایک بزرگ سے جا ملا سارا ماجرا ، ساری باتیں بزرگ کو بتائیں ، بزرگ نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ سکندر کو سب بتادیں گے لیکن اس سے پہلے بزرگ نے اس سے ایک شرط رکھی کہ ایک ہفتے کے لیے خاموشی اختیار کرو اور ایک ہفتے کے بعد آنا،، سکندر نے بزرگ کی شرط قبول کرتے ہوئے بزرگ سے جانے کی اجازت لی۔۔۔۔
دیکھو نوشادہ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں اس کا مطلب یہ نہیں کے میں تمھاری ہر کہی بات مان لوں ۔۔۔۔ سجاد میں جانتی ہوں میں آپ کی اس بات کا دل سے احترام کرتی ہوں میں کبھی کسی کا برا نہیں چاہوں گی مجھے تو سب سے محبت ہے اور ایمان کو میں اپنی چھوٹی بہن مانتی ہوں اپنے بچوں کی طرح ایمان کا خیال رکھتی ہوں، میں بس یہ چاہتی ہوں کہ آپ ایمان کو شادی کے لیے منائے ، آپ کی بات وہ کبھی بھی نہیں ٹالیگی ، بابا اور امی بھی یہ ہی چاہتے ہیں۔۔۔۔۔
بھائی ، بھائی ، بھائی ، بھائی جان ۔۔۔۔۔۔۔۔ جی جی ۔۔۔۔۔ آپ کہاں خوگئے تھے کب سے آپ کو آواز دے رہی تھی بابا آپ کو بلا رہے ہیں ، آپ جائیں ان سے ملیں۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے گڑیا لیکن تم یہاں رکو مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے، میں واپس آکر تم سے بات کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔
آخر بھائی کس بارے میں بات کریں گے ۔۔۔۔۔ ایمان ایمان ۔۔۔۔جی جی بھائی۔۔۔۔۔ کہاں خوگئی یہاں میرا انتظار کرنا میں پانچ منٹ میں آیا۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحب بارہ گھنٹے ہو گئے ابھی تک اس بچی کو ہوش کیوں نہیں آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابا جی وہ ہی ہوا جس کا مجھ کو ڈر تھا یہ بچی کومہ میں چلی گئی ہے اب اسے کومہ سے باہر آنے میں کتنا وقت لگتا ہے یہ تو خدا جانتا ہے۔۔۔۔۔ او اللّٰہ رحم کرے ۔۔۔۔ اچھا ڈاکٹر عزیز احمد آپ کا یہاں آنے کا شکریہ ۔۔۔۔۔۔ ویسے بابا جی آپ نے آگے کیا سوچا ہے ؟ ۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب سوچنا کیا بچی کا کوئی اتا پتا نہیں ، کوئی اسے جانتا نہیں ، ہوش اس کو ہے نہیں ، ایسے نوجوان بچی کو کسی کے حوالے کرنا مجھے محفوظ نہیں لگ رہا جب تک یہ ہوش میں نہیں آتی اس کی دیکھ بھال میری زمیداری ہے، میں اس بچی کا خیال رکھوں گا ۔۔۔۔۔۔ اچھا جیسا آپ چاہیں بابا جی مجھے اجازت دیں اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔۔ اللّٰہ حافظ ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔۔
کوئی ہے کوئی ہے ذرا جلدی کرو مامو کو بلائو مجھے کہیں جانا ہے ۔۔۔۔۔ جی بیبی جی ۔۔۔۔
خادم: بیبی جی مامو آگیا ہے۔
بیبی جی: اچھا ٹھیک ہے ، میں کچھ دنوں کے لیے باہر جا رہی ہوں یہاں سب سنبھال لینا۔۔۔۔۔۔ جی بیبی جی ،جو آپ کا حکم ۔۔۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے اللّٰہ حافظ ۔۔۔۔۔۔
مامو: آئیں آئیں بیبی جی بیٹھ جائیں ، بتائیں کہاں چلنا ہے؟
بیبی جی بتائیں نا کہاں چلنا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ھا ، ھاں ۔۔۔ بیبی جی خیریت تو ہے نا آپ کہاں خو گئی تھی؟
بیبی جی:" داتا کی دربار"
Comments
Popular Posts
Smart phone Motorola Moto G Stylus of the best product
- Get link
- X
- Other Apps
Nice 👍👌👌👌
ReplyDelete