Search This Blog
Real Urdu Kahaani , real love stories, moral stories, real sad stories, real tragedy stories, real poetry, Urdu poetry, Sindhi poetry, real poets and writers.
Featured
- Get link
- X
- Other Apps
How to become billionaire Urdu story part 1 " online earnings "
How to become billionaire Urdu story part 1 " online earnings "
میرے دوست نے سب کو یہ بتایا کے وہ کھرب پتی کیسے بن سکتے ہیں ۔ یہ کہانی میرے پیارے دوست افضل کی ہے جس نے کچھ سال پہلے ہی آنلائن ارننگ کرنا شروع کی اور وہ اس میں اتنا کامیاب ہوا کہ اب وہ ارب پتی بن گیا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی پیسے کمانا سکھاتا ہے ۔ میری اس کہانی کو جھوٹا سمجھنے سے پہلے ایک بار اس کو پڑھ ضرور لیں ہو سکتا ہے یہ کہانی آپ کی زندگی بدل دے۔ اس کہانی میں آپ وہ سب کچھ سیکھیں گے جو آپ کو کبھی کسی نے بتایا نہیں ہوگا ۔ حقیقت پہ مبنی اس داستان کو آسان لفظوں میں بیان کرنے کے لیے میں نے بہت محنت کی ہے ، ریسرچ کی ہے اور جو جو مواد جہاں سے ملا میں نے اس کہانی میں فقط آپ کی رہنمائی ، کامیابی اور کامرانی کے لیے لکھا ہے ۔ آپ سے بس ییہی امید اور التجا ہے کے آپ اس کہانی کو غور سے پڑھیں تاکہ میری محنت رائگاں نہیں جائے ۔
افضل نے کامیابی کے راز بتانے سے پہلے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ بتایا ، آپ افضل کے ماضی کے بارے میں جان کر حیران ہو جائینگے کہ کس طرح اس نے اپنی زندگی چند ہزار روپیوں کے لیے صرف کردی تھی ، نا اس کی زندگی میں سکون تھا اور نا ہی اس کا گھر ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا پریشانیوں نے اسے اس طرح سے گھیر لیا تھا جس طرح مکھیاں اور مچھر کسی مردہ جانور کو گھیر لیتی ہیں ۔ حقیقت میں افضل کا اس سے بھی برا حال تھا۔
افضل بتاتا ہے کہ جب وہ اپنی گریجویشن کر رہا تھا تو کالیج میں اس کے پاس دوستوں کے ساتھ چائے پینے کے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے۔ جہاں لوگ گھر سے کالیج تک بڑی بڑی گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں پہ آتے تھے وہیں افضل ہر روز گھر سے کالیج تک پیدل آتا جاتا تھا۔ کالیج میں ہر کوئی افضل کی غریبی پر مذاق اڑاتا تھا ، اس کے کپڑوں پہ ، اس کے کتابوں پہ ، اس کے پیدل آنے پہ ، میں کس کس چیز کا ذکر کروں ہر اس چیز پہ جس کا تعلق افضل سے تھا لوگ مشکری کرتے ، مذاق اڑاتے اور چلے جاتے بس ہر کوئی اپنی مستی میں مگن تھا لیکن جو افضل کے دل پہ بیت رہی تھی شاید اس کا علم افضل کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں تھا۔ اگر کسی کو تھوڑا بھی احساس ہوتا تو وہ افضل کے ساتھ ایسا نا خود کرتا اور نا ہی کسی اور کو افضل کے ساتھ ایسا کرنے دیتا۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد افضل نے بتایا کہ جب اس کے امتحانات قریب آئے تو اس نے اپنے والد سے کہا کہ مجھ کو امتحان کا فارم بھروانہ ہے تو آپ پیسوں کا بندوست کریں ، لیکن والد صاحب نے افضل کو کہا کہ بیٹا ہم سے نہیں ہو پائیگا اگر تم خود سے کرلیتے ہو تو کرو ورنہ پڑھائی چھوڑ دو ویسے بھی کونسا تم کو نوکری ملنے والی ہے ۔ افضل اپنے والد صاحب کی یہ بات سن کر بہت ہی مایوس ہوگیا لیکن اس نے اپنے والد صاحب کی بات کا برا نہیں مانا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اس کے گھر کے کیا حالات ہیں ۔ اس نے اپنے آپ سے یہ عہد کیا کے کیسے بھی کر کے وہ گریجویشن کے فائنل امتحان ضرور دیگا۔ اس لیے وہ اپنے گھر سے نکل پڑا امتحان کی فیس کمانے کہ لیے ۔
ویسے تو افضل پڑھا لکھا تھا لیکن ہمارے ملک میں سفارش اور پیسے کے بنا نا کوئی نوکری اور نا ہی کام ملتا ہے۔ افضل نے بہت تلاش کی لیکن نا ہی اس کو کوئی کام ملا اور ناہی اس کو کوئی نوکری ملی۔ تھک ہار کر افضل واپس گھر آگیا پھر اگلے روز کام کی تلاش میں نکل پڑا لیکن اس دن بھی وہ مایوس لوٹا لیکن افضل بہت ہی ہمت والا لڑکا تھا اس نے ہار نہیں مانی اور تیسرے روز بھی پہلے کی طرح کام کی تلاش میں نکل پڑا اس بار اسے ایک چائے کے ہوٹل میں بیرے کی نوکری مل رہی تھی اس نے کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر اس کام کو قبول کرلیا ، ہوٹل کے مالک نے جب اس کی ڈگری دیکھی تو وہ ہکا بکا رہ گیا اور افضل سے پوچھنے لگا کہ ایسی کونسی تمھاری مجبوری ہے کہ تم یہاں ہوٹل پہ کام کرنے کہ لیے تیار ہو جب کہ تم اتنے بڑے پڑھے لکھے ہو کچھہ وقت اگر کوشش کرتے رہے تو ضرور تم کو اس سے بہتر کوئی نوکری یا کام مل جائیگا تو افضل نے ہوٹل کے مالک سے التجا کی کے مجھے بس ییہی کام کرنا ہے بس آپ مجھے یہاں رکھ لیں کیونکہ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ۔
افضل کا ہوٹل پہ پہلا دن تھا ، آپ تو جانتے ہیں کے ہوٹلوں پہ ہر قسم کے لوگ آتے ہیں اچھے بھی تو برے بھی ۔ افضل کو تجربہ نہیں تھا اور نا ہی یہ احساس کہ اس کے ساتھ کسٹمر کس کس طریقے سے پیش آئینگے ۔ افضل ایک آرڈر سرو کرنے گیا تو کسٹمروں نے چائے افضل کے منہ پی پھیکدی کہ یہ کیسی چائے لیکر آئے ہو بلکل اچھی نہیں یہ بات ہوٹل مالک نے اپنے آنکھوں سے دیکھی لیکن افضل نے ان کو معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آپ تھوڑا وقت انتظار کریں میں آپ کے لیے اچھی چائے بنوا کر لاتا ہوں ، وہ لوگ اتنے بد زبان تھے کہ میں کیا بات کروں افضل سے کہنے لگے ہمیں نہیں پینی چائے چلو جائو یہاں سے تم ۔ افضل نے صبر سے کام لیتے ہوئے ان کو منایا اور چائے بھی پلائی یہ سب ماجرا مالک نے دیکھا اور بہت خوش ہوا لیکن اس کو دکھ بھی ہوا۔
افضل نے پندرہ دن ہوٹل پہ کام کیا اب وہ ہوٹل کے مالک سے اپنی اجرت کا حساب کتاب کرنے کے لیے بات کرنے لگا تو ہوٹل مالک نے کہا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ تم جا رہے ہو اس طرح بیچ میں تم نہیں جاسکتے افضل نے ہوٹل مالک سے کہا کہ میں نے آپ سے پہلے ہی یہ بات کر دی تھی کے میں پندرہ دن کام کروں گا اس کے بعد بس۔ ہوٹل مالک نے یہ بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم ہوٹل پہ کام نہیں کروگے تو میں تمہیں پیسے بھی نہیں دونگا ۔ افضل بہت پریشان ہوگیا اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر وہ کرے تو کیا کرے ، اس نے مالک سے بہت منتیں کی لیکن وہ نہیں مانا اور دکے مار کر افضل کو ہوٹل سے نکلوایا اور اپنے پالتو کتوں سے افضل کو بہت ہی پٹوایا۔
افضل کو اتنی مار پڑی تھی کہ وہ بے ہوش ہو گیا تھا ان پالتو کتوں نے کچرے کے ڈھیر پر افضل کو پھینک دیا تھا یہ تو بھلا ہو ان کچرے سے سونا ڈھونڈنے والوں کا جنہوں نے افضل کو اسپتال پہنچایا اور اس کا علاج کرایا جب افضل کو ہوش آیا تو افضل نے ان لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور ان سے پوچھا کہ مجھے یہاں کتنے دن ہوگئے ہیں ؟ تو ان لوگوں نے کہا کہ آپ یہاں ایک مھینے سے بے ہوش پڑے تھے اللّٰہ پاک کا شکر ہے کہ آپ کو ہوش آگیا ہم روز آپ کی طبیعت دیکھنے کے لیے یہاں آتے رہتے تھے ہم نے آپ کے گھر والوں کو بہت ڈھونڈا لیکن ان کا کوئی پتا نا چلا اس لیے ہم ان کو آپ کے بارے میں اطلاع نہیں دے پائے اس کے لیے ہم آپ سے معذرت کرتے ہیں ۔ افضل بلکل خاموش ہوگیا تھا اسے کسی چیز کی فکر نہیں تھی اسے بس اپنے امتحانات یاد آ رہے تھے جو کہ اب گذز بھی گئے تھے ۔
اتنے دنوں کے بعد جب افضل گھر لوٹا تو اس کے گھر والے اس کا ماتھا چومتے ، اس سے گلے لگتے ، افضل کی ماں کی آنکھوں سے آنسوں رک ہی نہیں رہے تھے ، افضل نے ان کو کچھ بھی نہ بتایا اور ان سے کہا کہ میں کچھ دن شھر سے باہر گیا تھا اور پھر اپنے والدین سے معافی مانگی کہ وہ ان کو بنا بتائے چلا گیا تھا والدین نے اللّٰہ پاک کا شکر ادا کیا اور افضل کو کہنے لگے کہ آئندہ ہمیں بتا کر جانا جہاں بھی جانا ہو اگر۔ افضل نے حامی بھر لی اور کہا ٹھیک ہے ۔ اب افضل کے پاس کوئی مقصد نہیں تھا کیونکہ اس کی ڈگری چلی گئی گھر کے حالات پیچیدہ تھے اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر اسے کرنا کیا چاہییے ۔
افضل بتاتا ہے کہ کچھہ دنوں کے لیے وہ گھر سے باہر نہیں نکلا تو یہ بات اس کے ایک قریبی دوست کو پتا چلی تو وہ افضل کو ملنے آیا اور سارا ماجرا معلوم کرکے افضل سے کہا کہ تم اتنی سی بات پہ مایوس ہوگئے ہو کیا تم کو پتا نہیں کہ مایوسی شرک ہے؟ یار چھوڑو چلو باہر میرے ساتھ کہیں چل کر بات کرتے ہیں ۔ افضل اور اس کا دوست اپنے شہر کے قریبی پارک میں آئے اور چند گھڑیاں وہاں پر گپ شپ کرنے لگے اتنے میں وہاں ایک چھولے بھیجنے والا آیا افضل نے اس سے بیس روپے کے چھولے خریدے ، جس اخبار کے ٹکڑے میں افضل کو چھولے ملے اس میں کچھ یوں لکھا ہوا تھا اگر آپ اپنی زندگی تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو آنلائن ارننگ کی دنیا میں قدم رکھیں مزید معلومات کے لیے نیچے دیے گئے نمبر پر رابطہ کریں ۔
افضل کو ایک نیا احساس محسوس ہوا ، افضل کے دل میں ایک گھنٹی بھی جس نے اس کو یہ اطلاع دی کہ تمھاری قسمت کھلنے والی ہے ۔
مزید پڑھنے کے لئے قسط نمبر 2 کے لیے کمینٹس کریں شکریہ ۔
Popular Posts
Smart phone Motorola Moto G Stylus of the best product
- Get link
- X
- Other Apps
Comments
Post a Comment