Search This Blog
Real Urdu Kahaani , real love stories, moral stories, real sad stories, real tragedy stories, real poetry, Urdu poetry, Sindhi poetry, real poets and writers.
Featured
- Get link
- X
- Other Apps
Ishiq khuda se ho agar Urdu article "new thoughts"
Ishiq khuda se ho agar Urdu article "new thoughts"
بلال کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا ، اس نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے بزرگوں سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے اسے وطن سے باہر بیجا گیا ، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب وہ وطن واپس آیا تو وہ پہلے سے زیادہ متقی اور پرہیز گار لگ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر اس کے گھر والے بہت خوش ہوئے کیونکہ ان کی محنت رنگ لے آئی جیسا وہ چاہتے تھے ویسا ہی ہوا۔ بلال کے والد کے گذر جانے کے بعد گھر کی ساری ذمیداریاں بلال پہ آگئی ، اس نے اپنی ذمیداریوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا بلکہ احسن طریقے سے وہ اپنا فرض نبھاتا رہا۔ لیکن شاید اسے یہ پتا نہیں تھا کہ اس کے امتحانات قریب ہیں ، اسے آزمایا جائے گا ۔ گھر والوں نے بلال کی شادی طئے کردی اور کچھہ دنوں کے بعد نکاح بھی ہوگیا ۔
شادی کے بعد بلال نے یہ محسوس کیا کہ لوگ اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں ۔ بلال کو نہ اچھا لگا اور نہ ہی برا ، وہ لوگوں کی بدلتی کیفیات سے واقف تھا کہ کس طرح لوگ اپنی سوچ اور نظریات بدل لیتے ہیں ۔ جو لوگ پہلے یہ سوچتے تھے کہ بلال کتنا متقی ہے ، کتنا اچھا ہے ، کتنا پرہیزگار ہے اور کتنا سنجیدہ ہے اب وہ ہی لوگ کہ رہے ہیں کہ بلال شادے کے بعد سب کچھ چھوڑ دے گا ، وہ نماز پڑھنا چھوڑ دیگا ، خدا کا ذکر کرنا چھوڑ دیگا ، لوگوں کی خدمت کرنا چھوڑ دیگا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔
لیکن شاید لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ جن کے ارادے چٹانوں جیسے مظبوط و معین ہو ، وہ کبھی بھی اپنی عادات نہیں بدلتے۔ کچھ لوگوں کے ارادے بھلے ہی کمزور کیوں نہ ہو لیکن بلال ایسا انسان نہیں تھا جو خود کو دھوکا دے ، کیونکہ اپنے آپ کو بدلنا اور خود کو بری راہ کی طرف گامزن کرنا یہ خود کے ساتھ نا انصافی ہے، خود کے ساتھ دھوکا ہے اور خود کے ساتھ جنگ ہے۔
بلال نے لوگوں کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی زندگی کے تسلسل کو برقرار رکھا اور نا ہی کسی سے شکوہ کیا ، نا ہی شکایت کی اور نا ہی غلا کیا ۔ بلال ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیتا تھا وہ جلدبازی کو حرام مانتا تھا اس کا یقین محکم تھا وہ ہر وقت اپنے پروردگار کی یاد میں محو اور گم رہتا تھا۔
یہاں تک آپ بلال کے بارے میں بہت کچھہ جان چکے ہونگے لیکن ابھی کہانی شروع تو اب ہو رہی ہے۔ تو چلییے دوستو کہانی کو آگے پڑھتے ہیں ۔ شادی کے کچھ وقت بعد بلال کی زوجہ محترمہ نے بلال سے کہا کہ اسے یہاں گائوں میں نہیں رہنا لہذا مجھے شہر میں ایک گھر خرید کر دیں تاکہ میں وہاں پر رہوں ، بلال اس کو سمجھاتا اس سے پہلے اس نے خود سے پوچھا کہ اس میں اتنی سمجھ نہیں کہ یہ محترمہ میری بات سمجھ سکے اس لیے بلال نے یہ فیصلہ کیا کہ زوجہ محترمہ کو شھر میں ایک گھر خرید کہ دینا چاہیے ، اسی سلسلے میں اگلے روز بلال اپنی زوجہ محترمہ کو گھر دکھانے کے لیے شھر لے گیا جو گھر اس کی زوجہ محترمہ کو پسند آیا بلال نے وہ گھر اسے خرید کر دے دیا ۔
اب بلال اور اس کی زوجہ محترمہ اس شھر والے گھر میں رہ رہے تھے۔ بلال کی زوجہ محترمہ کو بلال کا رات کو دیر دیر تک جاگنا اچھا نہیں لگتا تھا جس کے باعث وہ روز اپنے شوہر سے لڑائی کرتی کہ یہ رات کا کونسا وقت ہے جو تم جاگتے ہو ، میری نیند خراب کرتے ہو وغیرہ وغیرہ ۔ بلال اس کو بہت ہی پیار سے سمجھاتا لیکن وہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتی یہ سلسلہ بہت وقت سے چلا لیکن بلال نے اپنے رب کی یاد کو کیسے چھوڑنا تھا ، کچھ وقت کے بعد بلال کی زوجہ محترمہ بلال سے ناراض ہوکر اپنے میکے چلی گئی ۔ بلال کو یہ بات اچھی نہیں لگی وہ اپنی گھر والی کے پیچھے پیچھے اس کے میکے چلا گیا اس کو منانے کے لیے ، لیکن وہ محترمہ تھی کے مان ہی نہیں رہی تھی ۔ بلال نے اپنے ساس اور سسر سے التجا کی کہ خدارا آپ اس کو سمجھائو وہ میری بات تو نہیں مان رہی۔ بلال کے ساس اور سسر نے اپنی بیٹی کو بہت سمجھایا لیکن بیٹی نے ان کی بات بھی نہیں مانی تو بلال کے ساس اور سسر نے بلال سے کہا کہ دیکھو بیٹا تم اپنی جگہ سہی ہو لیکن یہ ہماری بیٹی بہت زدی ہے تم کچھ دنوں کے لیے اسے یہاں چھوڑ جائو جب غصہ ٹھنڈا ہو جائیگا تو خودبخود تمھارے پاس چلی آئیگی ، بلال نے بڑوں کی بات مانی اور وہاں سے گھر واپس آگیا ۔
بلال کی گھر والی گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے یہ بات سارے رشتےداروں میں پھیل گئی کہ لوگ بلال کو طعنہ مارنے میں ہچکتے نہیں تھے ، بلال نے سب کچھ سہا اور اپنی زندگی اسی تسلسل سے جیتا رہا ، اپنی عادات کو نہیں بدلا ، اپنی عبادت کو نہیں بھولا ۔ لوگ تو بلال کو اس کے منہ پر بھی کہ دیتے کہ تمھارا گھر تو بس ختم سمجھو۔ لیکن بلال کا اپنے رب یقین کامل تھا اس نے کسی کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔
پھر اچانک کچھ دنوں کے بعد بلال کی طبیعت خراب ہوگئی وہ بستر پر آگیا نا ہل پا رہا تھا نا کسی سے بات کر پا رہا تھا ، یہ بات اس کے سسرال تک پنہچی تو سسرال والے فوراً اس کے یہاں چلے آئے لیکن اس کی زوجہ محترمہ نہیں آئی جب اس نے یہ سنا کا اس کا شوہر اب کسی کام کا نہیں تو اپنے گھر والوں کو کہا کہ مجھے اس سے خلا چاہیے ۔ گھر والے جب بلال کی طبیعت سے واقف ہوگئے تو انہوں نے بھی اپنی بیٹی کا فیصلہ قبول کیا اور کیسے بھی کر کہ بلال سے علیحدگی کرلی۔
آہستہ آہستہ رشتےدار بلال کی طبیعت سے تنگ آگئے اور اس کو ایک ایک کرکے چھوڑ گئے ، ہاسپیٹل والوں نے بلال کو اکیلا نہیں چھوڑا کیوں کہ وہ بلال کو ذاتی جانتے تھے اس لیے انہوں نے بلال کے لیے علیحدہ ایک نرس جو چوبیس گھنٹے اس کا خیال کرے وہ رکھ لی۔ نرس نے بلال کا بہت اچھے طریقے سے خیال رکھا ، وقت پہ اس کو انجیکشن لگاتی، اور دوائی دیتی رہی ۔ ایک سال کے بعد بلال کو ہوش آیا اور اس کے لبوں پر سورۃ فاتحہ کا ورد تھا یہ دیکھ کر وہ نرس حیرت میں آگئی کہ اتنے عرصے سے یہ بیہوش تھا اچانک ٹھیک ہونے کہ فوراً بعد اسے یہ کیسے ہوش رہا کہ اسے سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہیئے ۔ بلال نرس کی کیفیت سمجھ گیا اور نرس سے کہا کہ دیکھو نرس جو انسان ہر حالت میں اپنے رب کو یاد کرتا ہے خدا اسے اکیلا نہیں چھوڑتا ۔ آپ کے حساب سے میں کومہ میں تھا ، بیہوش تھا لیکن حقیقت میں میں ایک اور جہاں میں خدا کے حکم سے اس کی یاد میں محو تھا جب اس نے مجھے اس دنیا میں واپس آنے کا حکم دیا تو میں یہاں ہوش میں آگیا اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت تو میں وہاں کر رہا تھا لیکن خدا کا حکم آتے ہی میں یہاں آگیا اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت میرے لبوں پر جاری تھی ۔
نرس نے بلال سے پوچھا تب تو آپ سب کچھ جانتے ہونگے کہ آپ کے سب رشتیدار آپ کو چھوڑ چکے ہیں اور آپ کی زوجہ محترمہ آپ سے خلا لے چکی ہے آپ تقریباً ایک سال سے اس ہاسپیٹل میں ایڈمٹ ہیں ۔ بلال نے کہا ہا مجھے سب کچھ پتا ہے ۔ میں تو بس اس کی رضا میں راضی ہوں ۔ بلال نے کہا آپ ڈاکٹر صاحب کو بلائیں میں ان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ۔ نرس نے اپنی آنکھوں کو نیچے کرتے ہوئے بڑی حیا سے بلال سے کہا کہ بلال صاحب وہ ڈاکٹر اور کوئی نہیں میں ہی ہوں اس ہاسپیٹل کی مالکن بھی میں ہوں ، ڈاکٹر بھی میں ہوں اور نرس بھی میں ہوں ، جب میں نے آپ کو یہاں ایسی حالت میں دیکھا جب سب آپ سے کنارہ کر رہے تھے تو مجھ سے رہا نہ گیا میں یہ زمیداری کسی اور کو بھی سونپ سکتی تھی لیکن یہ میں نے خود کرنا چاہا۔ اور اس سب کی وجہ آپ خود ہیں اگر آپ کو برا نا لگے تو کیا آپ مجھے اپنے نکاح میں قبول کرینگے ؟
بلال نے اس نرس کی حیا ، اس کا نرم اور دیمی آواز پسند کی اور نرس سے کہا کہ یہ بشارت مجھے پہلے ہی مل چکی تھی لہٰذا میں تم سے نکاح کرنے کہ لیے تیار ہوں میں کل ہی آپ کے گھر والوں کہ پاس آئوں گا آپ کا رشتا لینے کہ لیے ۔ دو دنوں میں بلال نے اس نرس سے شادی کرلی بلال کے رشتیداروں نے بلال سے معافی مانگی اور بلال سے کہنے لگے کہ عشق اگر خدا سے ہو تو ایسی قسمت دیکھنے کو ملتی ہے
Popular Posts
Smart phone Motorola Moto G Stylus of the best product
- Get link
- X
- Other Apps
Comments
Post a Comment