Skip to main content

Featured

Rocky Rabbit Game

  The hundred percent sure game Rocky Rabbit Game What Is Rocky Rabbit? Rocky Rabbit is a clicker game designed to merge entertainment and crypto earnings. Players train digital rabbits, participate in battles, and complete challenges to earn crypto rewards. The game’s strategic mechanics allow users to build their skills while progressing through levels, with a strong focus on community engagement and competition #rockyrabbit 6139292554 Rocky Rabbit’s key features include: Daily Rewards: Regular bonuses for logging in and participating. Referral System: Invite friends and earn extra rewards. Strategic Battles: Compete in duels and tournaments to climb the rankings. Play-to-Earn Model: Earn real crypto rewards by excelling in the game. How Does the Rocky Rabbit Clicker Game Work?  The Rocky Rabbit Telegram Game is centered around a clicker mechanism that combines fast-paced action with strategic depth. As a player, your primary goal is to train your digital rabbit, engage in b...

"Mein tu Qabar mein hon" Urdu Kahaani Ali Ki zubani

 "Mein tu Qabar mein hon" Urdu Kahaani Ali Ki zubani


ضرورت خواہش سے بڑہ کر ہے۔ خواہش پوری نا ہو تو ہم زندگی کو جیسے تیسے گذارلیتے ہیں، لیکن اگر ضرورت پوری نا ہو تو ہم جیتے جی مر جاتے ہیں ۔ گھر ، جائیداد اور زمین ہر کوئی یہ نہیں چاہتا ۔ سکون سے رہنا اور اپنی اپنی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے زندگی گذار کر جینا سب کا بنیادی حق ہے لیکن آج اگر معاشرے پر غور کیا جائے تو ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا۔ کسی کی ضرورت کو کچلنا وہ بھی اپنے پیروں تلے اس سے بدتر اور کوئی گناہ نہیں ۔ ہم امیدوں کو ٹھوس پہنچاتے ہیں ، ہم لوگوں کی جذباتوں کو تکلیف دیتے ہیں اور ہم ان اوجھل آنکھوں سے دیکھے ہوئے خوابوں کی تعبیروں کو مایوس کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے کیا کیا ہے ؟ ہم نے تو کچھ نہیں کیا ؟ ، شرم آنی چاہیے ، لیکن ہمیں شرم کیسے آئے گی کیونکہ ہم بے شرم ہوچکے ہیں ۔


جب معاشرے سے مرے ہوئے لوگوں کی بدبو آنے لگے اور وہ اس غلط فہمی میں ہوں کہ انہوں نے خوشبو لگائی ہوئی ہے تو ان سے بڑھ کر کوئی اور بیوقوف نہیں ۔ معاشرہ ہر طبقے سے مل کر  خوشحالی والی زندگی بسر کرتا ہے ۔ معاشرے میں اگر غریب کو اک نظر سے اور امیر کو دوسری نظر سے دیکھا جانے لگے گا تو وہ معاشرہ معاشرہ نہیں رہتا وہ بکھر جاتا ہے ، اور جب معاشرہ بکھر جاتا ہے تو وہاں پر چور جنم لیتے ہیں ، ڈاکوں جنم لیتے ہیں اور لٹیرے جنم لیتے ہیں ۔ بکھرے ہوئے معاشرے میں کسی قسم کی تمیز نہیں رہتی وہاں قتل عام ہوتا رہتا ہے ، لوگوں کو دن ہو رات ہو اغوا کیا جاتا ہے۔ ان سب کے پیچھے کون ہے ؟ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ لوگ ایسے بے حس کیوں ہو جاتے ہیں ؟ ان کا احساس کہاں چلا جاتا ہے؟ وہ ایسے ظالم کیوں ہو جاتے ہیں ؟ کسی کے پاس ان سارے سوالوں کے جواب ہیں ؟ کسی نے یہ سوچا ہے کہ وہ ایسے کیوں بن گئے ہیں ؟ کوئی نہیں سوچتا ہر کوئی اپنے نشے میں مست ہے۔ 


سوچنے والا دل بہت ہی کومل ہوتا ہے ۔ وہ دل کسی کا دکھ دیکھ نہیں سکتا ، کسی کی ہچکیاں سن نہیں سکتا ، کسی کی آہ و زاریاں برداشت نہیں کر سکتا ، کسی کو تڑپ تڑپ کر مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ، کسی کو پگھلتے ہوئے دیکھ نہیں سکتا ، کسی کو گناہ گار ثابت ہوئے بغیر پھانسی پر لٹکتے ہوئے دیکھ نہیں سکتا ، کسی کو بھوکا پیاسا سوتے ہوئے دیکھ نہیں سکتا ، کسی کو انگاروں پر بغیر جوتوں کے چلتے ہوئے دیکھ نہیں سکتا ، کسی کو زہر کھاکر خودکشی کرتے ہوئے دیکھ نہیں سکتا ۔ میں کیا کیا بتاؤں کوئی بات کسی سے پوچھیدا تھوڑئی ہے کہ ہر چیز بتائوں ، آپ کو اللّٰہ پاک نے عقل دی ہے ، علم دیا ہے اور آپ کو بھی تو دل دیا ہے ، آپ دل کی کیوں نہیں سنتے ؟ آپ دل کی سنے میرے لیے، بس اک بار ، دیکھنا آپ کو بہت اچھا لگیگا ، تو آپ دل کی سنیگے نا، مجھ سے وعدہ کریں کہ آپ اپنے دل کی سنے گے۔


ایک بار مینے خود سے وعدہ کیا تھا کہ میں اس کو کبھی کوئی دکھ نہیں دونگا ، کچھ وقت تک میں اپنے وعدے پر قائم رہا لیکن شاید تقدیر میں اور لکھا ہوا تھا ، قدرت کو کچھ اور منظور تھا ، میری کوئی نا چلی ، بس خود بہ خود سب کچھ ہو رہا تھا ، مجھے سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا ،اور اچانک میں نے اس کو چھوڑ دیا ، اس کی منتوں کو ، اس کی التجائوں کو نظر انداز کیا ، مجھے اپنی غلطی کا احساس بہت دیر سے ہوا تب تک وہ اس دنیا کو الوداع کہ چکا تھا ، وہ اس فریبی دنیا کو چھوڑ چکا تھا ، وہ بہت ہی آگے چلا گیا تھا لیکن میں ابھی بھی وہیں موجود تھا ، میری آنکھوں سے کوئی آنسوں نہیں گرا ایسا لگ رہا تھا جیسے میرے آنسوں جم گئے ہیں ، میری زباں سے آواز نہیں آ رہی تھی جیسے اس پر مہر لگ گئی تھی، میں جہاں کھڑا تھا وہاں سے ہل نہیں پا رہا تھا ، پہر جب خود کو تنہا پایہ تو یہ احساس ہوا کے میں تو مر چکا ہوں ، میں تو دفنایا گیا ہوں، میں تو قبر میں ہوں۔

Comments

Popular Posts